۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
گلزار جعفری

حوزہ/ لوگ جس شجاعت کےلیے طویل و عریض قصیدے لکھتے ہیں وہ در حقیقت جہاد اصغر ہے،شہنشاہ وفا کا جہاد اکبر دیکھنا ہے تو حیات کے ہر اس مرحلہ پر خاموشی دیکھوگے جہاں جزبات تکلم طلب تھے وہاں نفس پر تاب ضبط کا عنوان بن کر پیمانہ صبر کو چھلکا تے رہے جتنی شدت سے کربلا میں نیزہ برداری شمشیر زنی کی ہے اس سے کہیں زیادہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا گیا جو علامت ہیکہ طاقت ہونے کے بعد جبر کمال نہیں صبر کمال ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | افق علوی کے شفق پر جسکا نور سرمدی جگمگا اٹھا ہو جس نے آفتاب حسینیت سے کسب ضیاء کرکے اقلیم علم و حلم کو روشن کرنے والی ذات عالی وقار کو الماس حقیقت کربلا کہوں یا عباس با وفا بہر کیف

شیر نیستان حیدر ،شمشیر علوی کا پیکر ، شہنشاہ کشور وفا

بادشاہ ہل اتی ، وارث انما ،ساقی اہل حرم ، شہسوار توسن وقت رواں ،خادم ہادی دوراں ، جو ایک ہی وقت میں صاحب علم بھی اور صاحب علم بھی ،صاحب قلم بھی اور تیغ دو دم بھی ، جسکی ایک نگاہ کمال کے دو اثر تھے

ادھر دیکھے تو اہل حرم کو سکون ملے

ادھر دیکھے تو لشکر ستم کا سکون رخصت ہو جایے

ادھر دیکھے تو دولت سکون لٹا دے ادھر دیکھے تو لشکر کا چین و سکون لوٹ لے ،

جو دشمنوں کے حق میں سھم ترکش آلہی

جو فوج جفاکار کے لیے برق شرربار

جو تمناء علی اور آرزوء فاطمہ زہرا، شجر رسالت کا غصن حسیں

علی کے لفظوں کا خزانہ سمٹے تو نہج البلاغہ کہلایے

اور علی کے ارادوں کو قالب میں ڈھالا جایے تو باب الحوایج بنتا ہے ، جو ایک وقت میں قاری بھی تھا خطیب بھی سپاہی بھی تھا وزیر بھی شاہ بھی تھا اور نعلین بردار حسین بھی ،

جو یداللہ کے کردار کا آءینہ دار تھا تو ایک ہاتھ میں قرآن محمد تو دوسرے ہاتھ میں ذوالفقار علی لیکر ہدایت کے فریضہ کو انجام‌دیتا ہے

جو خطیب کعبہ بھی اور مجاہد کربلا بھی ، جو ادیب حرم بھی ہے اور محافظ حریم حرم بھی

جو اپنی ذات میں تنہا لشکر بھی اور سپہ سالار عسکر بھی

وہ جو فرش پہ حسین کی جوتیاں اٹھاتا ہے تو عرش اعظم پر قدسیاں و کروبیاں اسکی نعلین برداری پر فخر و مباہات کرتے نظر آتے ہیں ،

وہ شجاعتوں کا شہرہ آفاق شہنشاہ

وہ عفتوں اور عصمتوں کا پاسبان و نگہباں

وہ عظمتوں کا بحر بے کراں

وہ عالم با عمل

وہ عنوان عدل و کرم

وہ با رگاہ حسینی کا باب اجازت

وہ دعاء آلہی کا باب اجابت

اسکی معرفت رب ذوالجلال کا یہ عالم کے جس زبان سے ایک کہہ دے پھر دو نہیں کہتا

وہ سفیر حریت ، وہ سقایت کا ابر کرم جو صغر سنی میں اپنے وجود کو بھگو کر بھی بھاءی کو سیراب کردے

وہ ساقی عطاش فرات جو سمندروں کا سیرابی عطا کرے

وہ امین کربلا جو یتیموں کی امیدیں بیواووں کا سہارا ، بیویوں کا آسرا

جو اہل ولا کی ڈھآرس

جو وادی عشق و شغف کا راہی

کربلا و نجف کا باسی

جسکی گہوارہ جنبانی جبریل امین کرے وہ نواسہ رسول عباس کی گہوارہ جنبانی کرے

جسکی تمناء امام مبین کرے

جسکی تربیت حسنین کریمین کریں

اسکی مدحت میں گستردہ کوءی کیسے ہو بھلا

آب کوثر سے وضو کروں ماء سلسبیل سے فکر رواں کو طیب و طاہر کروں بارگاہ فکرو فن شہر نجف سے اجازت طلب کروں ،صحف سماویہ سے لفظوں کا انتخاب کروں،قرآن سر پہ رکھوں ،نہج البلاغہ سامنے رکھوں ،صحیفہ سجادیہ کی ہوا سے دہن کو معطر کروں ، مصحف فاطمہ کے اوراق کی پاکیزہ خوشبو سے قلب و نظر کو با برکت کروں عصمتوں اور عفتوں کی قدم بوسی کروں پھر قلم مدحت کی تشنگی کو فرات سے سیراب کروں اور کلک قلم کو خون جگر سے تر کروں طایر تخیل کو فضاء الفت و محبت میں پرواز کراؤں اور ملایکہ کے شعور و آگہی کو اپنے کاسہ ادب میں سمیٹ لوں اور پوری قوت تدبر و تامل پر قابو پا کر سرمایہ فکری کو اکٹھا کروں تو چشم بصیرت واں ہو تو شاید اسکے پیر کے انگھوٹھے کے ناخن کی چاند سی تصویر کشی کا ہنر ایے تو چار شعبان کو آنے والے ماہتاب علوی کے فضل و کمال پر کچھ لکھنے کی کوشش کروں تو ایک فکری گوشۂ پوری حیات بشری کے لیے مشعل راہ بن جایے

لوگ جس شجاعت کےلیے طویل و عریض قصیدے لکھتے ہیں وہ در حقیقت جہاد اصغر ہے

مگر شہنشاہ وفا کا جہاد اکبر دیکھنا ہے تو حیات کے ہر اس مرحلہ پر خاموشی دیکھوگے جہاں جزبات تکلم طلب تھے وہاں نفس پر تاب ضبط کا عنوان بن کر پیمانہ صبر کو چھلکا تے رہے جتنی شدت سے کربلا میں نیزہ برداری شمشیر زنی کی ہے اس سے کہیں زیادہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا گیا جو علامت ہیکہ طاقت ہونے کے بعد جبر کمال نہیں صبر کمال ہے قتل کمال نہیں عدل کمال ہے ظلم وستم کمال نہیں علم و حلم کمال ہے ماردینا کمال نہیں چھوڑ دینا کمال ہے اپنے ارادے سے تلوار نکلے مگر اطاعت کے اشارے پر شمشیر نیام میں پلٹ جایے

جبین غضب پر جب شکنیں نظر آنے لگیں تو نفس شکنی کا منظر حکم امام کے پس منظر میں دیکھاءی دینے لگے

آج کے اس غصیلے غضبی اور عیظیلے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہونے والے کم خون سماج کے لیے ایک شیرو شجاع ، شمشیر مشکل کشا کے نقش کف پا کو مشعل راہ بنا لیا جایے تو جشن ولادت کی حقیقت کا تبرک گویا نوش کرلیا ہے

ورنہ رسمیات جشن و چراغاں سے گھروں کو سجایا جا سکتا ہے جو ایک اچھی بات ہے مگر کردار کو سنوارا نہیں جا سکتا ثواب تو کمایا جا سکتا ہے پر کردار کے سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا ، روز ولادت روز نصیحت ، روز شہادت روز وصیت جب سماج منانے لگ جاءیگا تو کیک کاٹنے کی رسموں کو رواج ملنے کے بجایے کردار سازی کی محفلیں حقیقی مسرتوں کا پیغام دینے لگیں گی معاشرہ کی ذمہ داری کہ روز ولادت رسمی تبریک و تہنیت سے نکل کر حقیقی اور تحریکی اور آل محمد کی خوشی ومسرت کا خیال رکھیں تصویروں کی ارسال و ترسیل اسٹیکرز کا آدان پردان صحیفہ وفا کی ایک سطر کا ایک لفظ یا ایک لفظ کا ایک حرف ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں جبکہ پوری کتاب معرفت اور صحیفہ وفا ابھی تشنگی عمل کی شدت کا طلبگار ہے کڑوی باتیں جشن کی مٹھاءی کے ساتھ ہضم کرنے کا حوصلہ پیدا کریں بڑی مہر بانی ہوگی

روز ولادت با سعادت باب الحوایج مبارک ہو

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .